کالا موتیا کی اس قسم کی کیا علامات ہوتی ہیں؟

کالا موتیا کی اس قسم کی علامات مختلف مریضوں میں مختلف ہوتی ہیں۔ کیونکہ علامتوں کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ مریض کی بیماری کی کونسی سٹیج ہے۔ اس کے علاوہ بعض علامات وہ ہوتی ہیں بو صرف مختلف آلات کے استعمال سے ہی نظر آتی ہیں اور بہت ساری علامات وہ ہیں جوصرف  مریض کو محسوس ہوتی ہیں کسی آلے سے ماپی نہیں جا سکتیں۔

وہ علامات جِن کومریض محسُوس کرتا ہے

جو مریضوں کالا موتیا کی اِس قسم میں مبتلا ہوتے ہیں اُن کو مرض کی تکلیف اتنی زیادہ ہوتی ہے ڈاکٹر کے پاس آنے پر مجبُور ہو جاتے ہیں۔ آنکھ کی درد، سر کی درد، نظر میں کمی، دھندلا پن، وغیرہ ایسی علامات ہیں جن کے آ جانے سے کوئی بھی گھر بیٹھا نہیں رہ سکتا۔ تفصیلات پر ذرا غور فرمائیں:

  1.  جس مریض میں ابھی مرض کی اِ بتدائی سٹیج ہو اُس کو وقتاً فوقتاً تھوڑے وقفے کے لئے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے سر بھاری ہو گیا ہے۔ بعض اوقات ہلکی سر درد بھی ہونے لگتی ہے لیکن تھو ڑے وقفے کے بعد یہ تکلیفیں خود ہی ٹھیک ہو جاتی ہیں یا پھر مختلف قسم کے ٹونے ٹوٹکے اختیار کرنے سے ٹھیک ہو جاتی ہیں چنانچہ کُچھ کو کِسی ڈاکٹر کی گولی یا ٹیکے سے آرام آ جاتا ہے کوئی کہتا ہے میں تو فلاں ہومیوپیتھک یا ہربل دوائی اِستعمال کرتا ہُوں اور ٹھیک ہو جاتا ہُوں۔ کئی اِس آرام آ جانے کو کِسی وظیفے اور وِرد کے ساتھ منسلِک کر دیتے ہیں۔ تکلیف کے اِس وقفے کو ہم مرض کا ایک دورہ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اِس سٹیج کوپروڈرومل سٹیج Prodromal stage کہتے ہیں۔ کہنے کو تو یہ دورہ چلا جاتا ہے اور مختلف ادویہ اور عامل وغیرہ کو اِس کے چلے جانے کا کریڈٹ بھی مل جاتا ہے لیکن دراصل نظر کا کُچھ نہ کُچھ نقصان ہو چکا ہوتا ہے۔ بیماری زینہ بہ زینہ بڑھتی رہتی ہے باکل ایسے ہی جیسے اندر ہی اندر دیمک بڑھتی رہتی ہے۔ بہت سارے مریضوں میں اِس سٹیج پر کالا موتیا تشخیص نہیں ہو پاتا حالانکہ یہ وہ سٹیج ہے جس میں کالا موتیا کا سو فیصد علاج ممکن ہے۔ تشخیص نہ ہو سکنے کی اہم تریں وجہ یہ ہوتی ہے کہ مریض آئی سپیشلسٹ کے پاس جاتے ہی نہیں۔
  2. جب مرض تھوڑا آگے بڑھتا ہے تو مرض کے دورے کے دوران آ نکھوں کے آگے کُچھ دُھندلاپن بھی محسُوس ہونے لگتا ہے اور بلب کی طرف دیکھنے پر رنگدار دائرے بھی نظر آنے لگتے ہیں۔ یہ بات دراصل اِس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہوتی ہے کہ بہاؤ کے راستے میں رُکاوٹ کافی بڑھ چکی ہے اور آنکھ کا پریشر اب کافی زیادہ مقدار میں بڑھنا شروع ہو گیا ہے اور ظاہر ہے اُسی تناسب سے ہر دورے کا نقصان بھی بڑھتا جا رہا ہے۔
  3. کالا موتیا کی اگلی سٹیج پر مریض کو مرض کے دورے کے دو ران سر کے سا تھ ساتھ آ نکھوں میں بھی درد شروع ہو جاتا ہے اور آنکھوں میں سُرخی بھی رہنا شروع ہو جا تی ہے۔ اور کُچھ نہ کُچھ بھا ری پن اور سُرخی دورے کے علاوہ بھی رہنے لگتی ہے، نظر میں آہستہ آہستہ کمی آنے لگتی ہے؛ اِس مرحلے پرکئی مرتبہ آئی سپیشلِسٹ بھی جلدی میں غلطی کر جاتے ہیں اور آنکھ کا دباؤ چیک نہیں کرتے اور الرجی اور کرونک کنجنکٹوائیٹس وغیرہ کی دوائیاں تجویز کر دیتے ہیں۔ اِس سٹیج کو کرونک کنجسٹو گلاکوماChronic congestive glaucoma کہتے ہیں۔
  4. اگر اس سٹیج پر علاج کے مو قع کو ضا ئع کر دیا جائے تو پھر وہ بدنامِ زمانہ دورہ پڑتا ہے۔ اِس سٹیج کو شدید اٹیک Acute congestive attackکہتے ہیں۔ یہ بیماری کی وہ بدنامِ زمانہ نوعیّت ہے جسے معروف معنوں میں کالا موتیا کہا جاتا ہے۔ اِس دورے کے دوران درج ذیل علامات مل سکتی ہیں:
    1. مریض کو سر میں شدید درد ہوتا ہے۔
    2. آ نکھ کے اندر شدید دردہوتا ہے۔
    3. کئی مر تبہ مریض آ کر بتاتے ہیں کہ درد کی شدّت کے باعث دو یا تین دن سے سو  بھی نہیں سکے۔
    4. شدید اُلٹیاں آنے لگتی ہیں اور اُن کا ہیضے کا علاج کیا جا رہا ہوتا ہے۔
    5. مدہوشی کی سی کیفیّت طاری ہو سکتی ہے۔
    6. نظر میں یکدم شدید کمی آ جا تی ہے۔

اِس حا لت میں کئی دفعہ مر یض کو ہسپتال دا خل بھی کر نا پڑتا ہے۔

وُہ علا مات جِن کا ڈ اکٹر مُعا ئنہ کر تا ہے

جب مرض ابھی شروع ہو رہا ہو تو اِس کی تشخیص بڑی مشکل ہوتی ہے۔ عملاً مریض کی داستانِ غم کو غور سننا ہی اہم ترین کام ہے جس سے تشخیص ہو سکتی ہے۔ اِس مرحلے پر خاص طور پر مریض کی توجہ سے ہسٹری لینا تشخیص کی بنیاد بنتا ہے۔ مریض کی علامتوں کو اگر غور سے نہ سُنا جائے یا اُن کی تفصیل کو دھیان سے نہ معلُوم کیا جا ئے تو اِس کی تشخیص ناممکن ہو جاتی ہے، کیونکہ اِس مرحلے پر تشخیص کے لئے ا بھی تک کوئی قابلِ اعتماد ٹسٹ دریافت نہیں ہو سکے۔

سلٹ لیمپ بائیو مائکروسکوپ Slit-Lamp Biomicroscope سے آنکھ کا معائنہ کیا جاتا ہے۔ یہ وہ مشین ہے جس کو پہلی د فعہ بنانے وا لے کو نوبل انعام دیا گیا تھا۔ عمومی معائنے کے علاوہ درجِ زیل معائنہ جات بھی کیے جاتے ہیں:

1. آنکھوں کی AC Depth چیک کی جاتی ہے کئی لوگوں میں یہ شروع سے ہی نارمل سے کم ہوتی ہے۔ سلٹ لیمپ کی مدد سے قرنیہ اور آئرس کے باہمی فاصلے کا معائنہ کرکے یہ اندازہ کیا جاتا ہے کہ آنکھ میں قرنیہ اور آئرس کے درمیان موجود خانے کی گہرائی کتنی ہے؟ کیونکہ اِسی میں گذر کر آنکھ کا پانی واپس خون میں جا کر شامل ہوتا ہے۔

2. آنکھ کا دباؤ چیک کیا جاتا ہے۔ آنکھ کے دباؤ کی پیما ئش اِس مرض کی تشخیص میں بہت اہمیّت رکھتی ہے۔ لیکن ایک خاص مسئلہ یہ ہے کہ بیماری کے ابتدائی مراحل میں آنکھ کا اندرونی دباؤ عام طور پر جب بھی چیک کریں نارمل ہو تا ہے۔ صرف دورے کے دوران ہی زیا دہ ہو تا ہے۔ اِس لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ جب مریض مخصوص کیفّت محسُو س کرے تو اُس دوران دباؤ کو چیک کرنے کا اِہتمام کیا جائے۔ جب بیماری کافی بڑھ چکی ہوتی ہے تو پھر تو یہ دباؤ کا بڑھنا ایک قابل اعتماد اور اہم ترین علامت بن جاتا ہے۔

  3.  ایک مخصوص عدسے کی مدد Gonioscopy کرکے پانی کے نکاس کے مقام  یعنی  ٹرابیکولر نیٹورک Trabecular meshwork کا معائنہ کیا جاتا ہے۔

کوئی تبصرہ نہیں

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *